Wednesday, July 15, 2015

ایک سچا واقعہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنه کی عدالت کا

قصہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنه اور ایک سچے قاتل کا

٧٨٦
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”


عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟

“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”

عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”

عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”

ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”


written by: Nadeem Mastan
مکمل تحریر >>

Tuesday, July 14, 2015

پاکستانی ثقافت

پاکستانی ثقافت میری نظر میں

پاکستانی ثقافت

پاکستان کا معاشرہ اور ثقافت مغرب میں بلوچ اور پشتون اور قدیم درد قبائل جیسے پنجابیوں، کشمیریوں، مشرق میں سندھیوں، مہاجرین، جنوب میں مکرانی اور دیگر متعدد نسلی گروہوں پر مشتمل ہے جبکہ شمال میں واکھی، بلتی اور شینا اقلیتیں. اسی طرح پاکستانی ثقافت ترک عوام، فارس، عرب، اور دیگر جنوبی ایشیائی، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطی کے عوام کے طور پر اس کے ہمسایہ ممالک، کے نسلی گروہوں نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے

Pakistani saqafat By Amjad Islam Amjad
Add caption

written by: Nadeem Mastan






مکمل تحریر >>

حضرتِ عُزَیرعلیہ السلام کا واقعہ

حضرتِ عُزَیرعلیہ السلام کا واقعہ قرآن پاک میں ارشاد گرامی ہوتا ہے

urdo.com

قرآن پاک میں ارشاد گرامی ہوتا ہے۔سورہ بقرہ آیت 259

کیا تم نے اس شخص کو نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گزر ہوا اور وہ بستی اپنی چھتوں کے بل گری پڑی تھی تو اس شخص نے کہا: اللہ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اسے سو سال موت کی حالت میں رکھا پھراسے زندہ کیا، (پھر اس شخص سے) فرمایا: تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ اس نے عرض کی: میں ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم وقت ٹھہرا ہوں گا ۔ اللہ نے فرمایا: (نہیں ) بلکہ تو یہاں سوسال ٹھہرا ہے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بدبودار نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ ( جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں ) اور یہ (سب) اس لئے (کیا گیا ہے) تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کہ ہم کیسے انہیں اٹھاتے (زندہ کرتے) ہیں پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں توجب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا تو وہ بول اُٹھا: میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
تفسیر خازن میں ہے کہ جب بُخت نصر بادشاہ نے بیتُ المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل و غارَتگَری کرکے تباہ کر ڈالا تو ایک مرتبہ حضرتِ عُزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہاں سے گزر ہوا، آپ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی میں پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں گری ہوئی تھیں ، آپ نے تعجب سے کہا ’’اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔اس پر اللہ تعالی نے اپنی اس نشانی کا ظہور ان پر فرمایا۔
اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی سواری کے جانور کو وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور گدھا بھی مرگیا۔ یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے، اس سے ستر برس بعد اللہ تعالیٰ نے ایران کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو غلبہ دیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیتُ المقدس پہنچا، اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ دوبارہ یہاں آکر بیتُ المقدس اور اس کے گردو نواح میں آباد ہوگئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس پورے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا، جب آپ کی وفات کو سوسال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا ،پہلے آنکھوں میں جان آئی، ابھی تک تمام جسم میں جان نہ آئی تھی۔ بقیہ جسم آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا۔ یہ واقعہ شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: تم یہاں کتنے دن ٹھہرے ؟ آپ نے اندازے سے عرض کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت۔ آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم یہاں ایک سو سال ٹھہرے ہو۔ اپنے کھانے اور پانی یعنی کھجور اور انگور کے رس کو دیکھوکہ ویسا ہی صحیح سلامت باقی ہے، اس میں بو تک پیدا نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہے، چنانچہ آپ نے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے، اس کا بدن گل گیا اور اعضاء بکھر گئے ہیں ، صرف سفید ہڈیاں چمک رہی تھیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے، اعضاء اپنی اپنی جگہ پر آئے ،ہڈیوں پر گوشت چڑھا ،گوشت پر کھال آئی، بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے۔
عنی یقین تو پہلے ہی تھا ، اب عینُ الْیَقین حاصل ہوگیا۔ پھر آپ اپنی اس سواری پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں تشریف لائے سرِ اقدس اور داڑھی مبارک کے کچھ بال سفید تھے، عمر وہی چالیس سال کی تھی، کوئی آپ کو نہ پہچانتا تھا۔ اندازے سے اپنے مکان پر پہنچے، ایک ضعیف بڑھیا ملی جس کے پاؤں رہ گئے تھے، وہ نابینا ہوگئی تھی، وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا ہوا تھا، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ عُزیر کا مکان ہے اس نے کہا ہاں ، لیکن عُزیر کہاں ، انہیں تو غائب ہوئے سو سال گزر گئے۔ یہ کہہ کروہ خوب روئی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں عُزیر ہوں ، اس نے کہا، سُبْحَانَ اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال موت کی حالت میں رکھ کر پھر زندہ کیا ہے۔ اس نے کہا، حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مُسْتَجابُ الدَّعْوات تھے، جو دعا کرتے قبول ہوتی، آپ دعا کیجئے کہ میری آنکھیں دوبارہ دیکھنا شروع کردیں تاکہ میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھوں۔ آپ نے دعا فرمائی اور وہ عورت بینا ہوگئی۔ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، خدا کے حکم سے اٹھ۔ یہ فرماتے ہی اس کے معذور پاؤں درست ہوگئے۔ اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بے شک حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ وہ آپ کو بنی اسرائیل کے محلے میں لے گئی، وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں پکارا کہ یہ حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے ہیں۔ اہلِ مجلس نے اس عورت کو جھٹلایا۔ اس نے کہا، مجھے دیکھو، ان کی دعا سے میری حالت ٹھیک ہوگئی ہے۔ لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے، آپ کے فرزند نے کہا کہ میرے والد صاحب کے کندھوں کے درمیان سیاہ بالوں کا ایک ہلال یعنی چاند تھا، جسم مبارک کھول کر دکھایا گیا تو وہ موجود تھا، نیزاس زما نہ میں توریت کا کوئی نسخہ باقی نہ رہا تھا، کوئی اس کا جاننے والا موجود نہ تھا۔ آپ نے تمام توریت زبانی پڑھ دی۔ ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنے والد سے معلوم ہوا کہ بخت نصر کی ستم انگیزیوں کے بعد گرفتاری کے زمانہ میں میرے دادا نے توریت ایک جگہ دفن کردی تھی اس کا پتہ مجھے معلوم ہے اس پتہ پر جستجو کرکے توریت کا وہ دفن شدہ نسخہ نکالا گیا اور حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی یاد سے جو توریت لکھائی تھی اس سے مقابلہ کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ تھا۔اس طرح لوگوں کو یقین ہوا کہ یہ ہی حضرتِ عُزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱/۲۰۲-۲۰۳، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱/۳۲۵)

(ندیم مستان)written by
مکمل تحریر >>

حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت

حضرت خضر علیہ السلام کي عبادتگاہ

حضرت خضر

حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت


حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ 
''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)
تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔

ابوالعباس بلیا بن ملکان

یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ (صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)
تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔

کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔

اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔
تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم
امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذ ہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی تھے ۔اور زندہ ہیں ۔ (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)
خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) ا ِنہیں سے متعلق(یعنی انہیں کے سپرد ) ہے اور
اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)
اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ ۔اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں ۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔
اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)
اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔واللہ تعالی اعلم

آب حیات کی حقیقت

آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔
ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔
جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک''کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ،اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
(بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم)
(ندیم مستان)written by

مکمل تحریر >>

Monday, July 13, 2015

روئے زمین پر کسی انسان کا پہلا قتل ۔ قصّہ ہابیل قابیل

 قصّہ ہابیل قابیل

قصّہ ہابیل قابیل 


یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب روئے زمین پر انسانی زندگی ابتدائی حالت میں تھی اور حضرت حواء کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک ساتھ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری مرتبہ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ کر دیا جاتا تھا۔ ہابیل اور قابیل یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔جب یہ جوان ہوئے تو دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح غازہ کے ساتھ جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا تو قابیل اس بات پر رضامند نہیں ہوا کیونکہ اقلیما ، غازہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی۔جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہٰذا تم یہ بات مان لو۔ اقلیما تمہارے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لئے وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مگر قابیل اپنی بات پر اڑا رہا ۔ با لآخر حضرت آدم علیہ السلام نے ان دونوں بھائیوں کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے حضور میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہوگی وہی اقلیما سے نکاح کا حق دار ہوگا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ تھی کہ لوگ اپنی قربانیاں پہاڑ پر رکھ دیتے تھے اور آسمان سے آگ آکر انھیں کھا جاتی تھی۔
قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل جانور پالتا تھا ۔ چنانچہ قابیل نے گندم کی بالیاں اور ہابیل نے ایک خوبصورت ، موٹا تازہ مینڈھا قربانی کے لئے ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور اللہ سے دعا مانگی یا الٰہی ہماری قربانی کو قبول فرما ۔ آسمان سے آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔جس سے قابیل کے دل میں ہابیل کے لئے غصہ ،حسد اور بغض پیدا ہوگیا اور وہ ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا ۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو میرے قتل کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاﺅں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
قربانی دے کر دونوں بھائی حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے ، آدم علیہ السلام نے فرمایا اے قابیل تیری بہن اقلیما اب ہابیل پر حلال ہوئی اور تجھ پر حرام۔ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اس لئے وہ ہابیل کو مارنے کی تدبیر میں رہنے لگا۔ اس دوران آدم علیہ السلام جب مکہ چلے گئے ، تو ایک دن قابیل نے دیکھا کہ ہابیل سورہا ہے تو سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے ماروں کیونکہ اس زمانے تک کسی نے کسی کو نہیں مارا تھا۔جب شیطان نے دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر زور سے اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا۔ یہ ترکیب دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ یہ ہی کیا اور زمین پر سے ایک پتھر اٹھا کر ہابیل کے سر پر دے مارا ،اور اپنے بے گناہ بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔
ہابیل کے قتل کے بعد قابیل یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوا کہ اب اس لاش کا کیا کرے۔یہ روئے زمین پر کسی انسان کا یہ پہلا قتل تھا، کیونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا۔ اس لئے قابیل حیران و پریشان تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں، چنانچہ وہ کئی روز تک بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر پھرتا رہا۔اللہ تعالیٰ کو اپنے اس نیک بندے کی لاش کی بے حرمتی منظور نہ تھی چنانچہ اس جگہ پر دو کوّے آئے اور وہاں آکر آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ پھر زندہ کوّے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھود ا اور اس میں اس مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبادیا۔ کوّے کو دیکھ قابیل اپنے اوپر ملامت کرنے لگا کہ میں اس کوّ ے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اتنا بھی نہ کرسکا۔ اس طرح قابیل کو معلوم ہوا، کہ ہابیل کی لاش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردینا چاہیئے۔ چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو دفن کردیا۔ 
جب حضرت آدم علیہ السلام مکّہ سے واپس آئے اور ہابیل کو نہ پایا تو اس کو بہت تلاش کیا، مگر وہ نہ ملا، لوگوں سے پوچھنے لگے ، کسی نے جواب دیا کہ ہابیل کچھ دنوں سے نہ معلوم کہاں گیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ہابیل صدمے میں کھانا پینا اور سونا سب ترک کردیا اور شب و روز ہابیل کے غم میں رہنے لگے۔ ایک روز آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ ہابیل الغیاث الغیاث ، اے پد ر، اے پدر، پکار رہا ہے،حضرت آدم علیہ السلام نیند سے چونک کر اٹھے اور زار زار رونے لگے۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو ہابیل کی قبر پر لے گئے ۔ 
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے قبر کھود کر ہابیل کو دیکھا کہ اس کا مغز نکلا ہوا ہے اوروہ خون سے آلودہ ہورہا ہے ۔ یہ حال دیکھ کر آپ ؑ دونوں بہت روئے۔ اور ہابیل کی لاش کو ایک تابوت میں بند کرکے اپنے مکان میں لاکر دفن کردیا ۔ اس وقت آپ ؑ کے ایک سو بیس بیٹے تھے جن میں سے سوائے ہابیل کے کوئی نہیں مرا تھا۔
 روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہوگئے تو سات دن تک زمین میں زلزلہ رہا ۔ قابیل جو بہت خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل سیاہ اور بدصورت ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ یمن کی سر زمین عدن میں چلا گیا ، وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھالیا تھا کہ وہ آگ کی پوجا کرتا تھا لہٰذا تو بھی آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا شخص ہے جس نے آگ کی پرستش کی اورزمین پریہ پہلا شخص ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین پر خون ناحق کیا۔ یہ وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جائے گا۔حدیث میں ہے کہ زمین پر قیامت تک جو بھی خونِ ناحق ہوگا۔اس کے عذاب کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ قابیل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔ قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا۔ اس کو پتھر مار کر قتل کردیا۔ اور یہ بدبخت آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ مارا گیا۔ (ماخوذ : تفسیر ابن کثیرجلد دوم صفحہ۶۵ تا ۰۶ ۔ روح البیان جلد دوم، صفحہ۱۸۳)
کسی بے گناہ کو قتل کرنا (خون ناحق) بہت بڑا جرم ہے قابیل نے غصہ، حسد اور بغض میں گرفتار ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا اس سے معلوم ہو ا کہ حسد، غصہ اور بغض انسان کے لئے کتنی بری اور خطرناک قلبی بیماری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا :” جو شخص کسی کو بلا وجہ مار ڈالے ، جبکہ اس نے نہ کسی کو قتل کیا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ اور جو شخص کسی بے قصور شخص کے قتل سے باز رہے گویا اس نے تما م لوگوں کو زندگی دی “(پارہ ۶،سورة مائدہ )

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو غصہ ، حسد، بغض اور تکبر سے بچائے اور ان سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین)

(ندیم مستان)written by
مکمل تحریر >>

تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ کلام 'بال جبریل' کی غزل  (لندن میں لکھےگئے)

لندن میں لکھےگئے
تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر

جس کا عمل ہے بے غرض ، اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال ، دانہ و دام سے گزر
کوہ شگاف تیری ضرب ، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!

(ندیم مستان)written by
مکمل تحریر >>

وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی کسی کے لیئےلال ہری چوڑیاں خریدتے ہو؟

خوبصورت کاوش آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، امید ہے پسند آے گی

١١١
  • وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی کسی کے لیئےلال ہری چوڑیاں خریدتے ہو؟
  • میں کہتا ہوں اب کسی کی کلائی پر یہ رنگ اچھا نہیں لگتا
  • وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی کسی کے آنچل کو آکاش لکھتے ہو؟
  • میں کہتا ہوں اب کسی کے آنچل میں اتنی وسعت کہاں ہے
  • وہ کہتی ہے کہ کیا مرے بعد کسی لڑکی سے محبت ہوئی ہے تمہیں؟
  • میں کہتا ہوں محبت صرف لڑکی پہ مشتعمل نہیں ہوتی إ
  • وہ کہتی ہے کہ جاناں ! لہجے میں بہت اُداسیاں سی ہیں
  • میں کہتا ہوں کہ تتلیوں نے بھی مرے دُکھ کو محسوس کیا ھے
  • وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی مجھے بےوفا کے نام سے یاد کرتے ہو؟
  • میں کہتا ہوں کہ میرے نصیب میں یہ لفظ شامل ہی نہیں
  • وہ کہتی ہے کہ کبھی میرے ذکر پر رو بھی لیتے ہو گے ؟؟
  • میں کہتا ہوں کہ میری آنکھوں کو ہر وقت کی پھوہار اچھی نہیں لگتی ہے
  • وہ کہتی ہے کہ تمہاری باتوں میں اتنی گہرائی کیوں ہے ؟
  • میں کہتا ہوں کہ تمہاری جدائی کے بعد مجھ کو یہ اعزاز ملا ہے ،۔،۔،۔۔۔
(ندیم مستان)written by
مکمل تحریر >>