Sunday, July 12, 2015

فاتح ہسپانیہ (سپین )۔ طارق بن زیاد

یورپ میں اسلامی سلطنت کا آغاز

فاتح ہسپانیہ

 یورپ میں اسلامی سلطنت کا آغاز اس عظیم سپاہ سالار کے ہاتھوں ہی ہوا۔ اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس فتح کے ساتھ ہی یورپ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔مسلمانوں کی آمد سے پہلے یورپ سیاسی ' معاشی اور غلامی کی چکی میں پس رہا تھا۔اس فتح نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔

طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو اُمیّہ کے جرنیل تھے ،جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے ،جنہوں نے ہسپانیہ میں "وزیگوتھ "بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کاعَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی تھی،جو ایک ماہرِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلدہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اُن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔
طارق بن زیاد 



طار ق بن زیاد بن عبداللہ ناصرف دُنیاکے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بلکہ وہ ایک متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ اُن کے حُسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا،جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر اُنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ جبکہ اس سات ہزار فوج کا مقابلہ سامنے ایک لاکھ فوج کے ساتھ تھا۔

30 اپریل 711ء کواسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اُترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے ،جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا جس کو یورپ والے جبرالٹر کہتے ہیں۔(جبرالٹر جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے)۔طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اُنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ 7 ہزار کے مختصراسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور 19جولائی کو عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کاسامناکیا،گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک ماراگیا،بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلاتھا ،جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔فتح کے بعد طارق بن زیادنے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کام یابی کی خبر سُن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزیدکئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیاد کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دُنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔

(ندیم مستان)written by

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔